Welcome to The Biggest Web Site On Black Magic & kala jadu Amliyat Ki Duniya !

Welcome to The Biggest Web Site On Black Magic & kala jadu Amliyat Ki Duniya !

Istikhara Ki Sunnat

Istikhara Method in Urdu for Urdu speaking muslims. How to do Istikhara in Urdu explained step by step. Istikhara Prayer in Urdu is only to understand Istikhara
Istikhara Method in Urdu for Urdu speaking muslims. How to do Istikhara in Urdu explained step by step.
Istikhara Prayer in Urdu is only to understand Istikhara
  
استخارہ کیسے کریں؟
  
سنت کے مطابق استخارہ کا سیدھا سادہ اور آسان طریقہ یہ ہے کہ دن رات میں کسی بھی وقت (بشرطیکہ وہ نفل کی ادائیگی کا مکروہ وقت نہ ہو) دو رکعت نفل استخارہ کی نیت سے پڑھیں۔ نیت یہ کریں کہ میرے سامنے یہ معاملہ یا مسئلہ ہے، اس میں جو راستہ میرے حق میں بہتر ہو اللہ تعالی اس کا فیصلہ فرما دیں۔
سلام پھیر کر نماز کے بعد استخارہ کی وہ مسنون دعا مانگیں جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تلقین فرمائی ہے، اگرکسی کو دعا یاد نہ ہو تو کوئی بات نہیں کتاب سے دیکھ کر یہ دعا مانگ لے۔ اگر عربی میں دعا مانگنے میں دقت ہو رہی ہو تو ساتھ ساتھ اردو میں بھی یہ دعا مانگے، بس ! دعا کے جتنے الفاظ ہیں، وہی اس سے مطلوب ومقصود ہیں، وہ الفاظ یہ ہیں:
  
اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ أَسْتَخِیْرُکَ بِعِلْمِکَ ، وَ أَسْتَقْدِرُکَ بِقُدْرَتِکَ، وَ أَسْأَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ الْعَظِیْمِ ، فَاِنَّکَ تَقْدِرُ وَ لاَ أَقْدِرُ، وَ تَعْلَمُ وَلاَ أَعْلَمُ ، وَ أَنْتَ عَلاَّمُ الْغُیُوْبِ اَللّٰہُمَّ اِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ ہٰذَا الْأَمْرَ خَیْرٌ لِّیْ فِیْ دِیْنِیْ وَ مَعَاشِیْ وَ عَاقِبَةِ أَمْرِیْ وَ عَاجِلِہ وَ اٰجِلِہ ، فَاقْدِرْہُ لِیْ ، وَ یَسِّرْہُ لِیْ ، ثُمَّ بَارِکْ لِیْ فِیْہِ وَ اِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ ھٰذَا الْأَمْرَ شَرٌ لِّیْ فِیْ دِیْنِیْ وَمَعَاشِیْ وَ عَاقِبَةِ أَمْرِیْ وَ عَاجِلِہ وَ اٰجِلِہ ، فَاصْرِفْہُ عَنِّیْ وَاصْرِفْنِیْ عَنْہُ ، وَاقْدِرْ لِیَ الْخَیْرَ حَیْثُ کَانَ ثُمَّ اَرْضِنِیْ بِہ۔ 
(بخاری،ترمذی )
  
دعا کرتے وقت جب ” ہٰذَا الْأَمْرَ “پر پہنچے تو اگر عربی جانتا ہے تو اس جگہ اپنی حاجت کا تذکرہ کرے یعنی ”ہذا الامر “کی جگہ اپنے کام کا نام لے، مثلا ”ہذا السفر “یا ”ہذا النکاح “ یا ”ہذہ التجارة “یا ”ہذا البیع “کہے ، اور اگر عربی نہیں جانتا تو ”ہذا الأمر“ ہی کہہ کر دل میں اپنے اس کام کے بارے میں سوچے اور دھیان دے جس کے لیے استخارہ کر رہا ہے۔
  
استخارہ کی دعا کا مطلب و مفہوم:
  
"اے اللہ ! میں آپ کے علم کا واسطہ دے کر آپ سے خیراور بھلائی طلب کرتا ہوں اور آپ کی قدرت کا واسطہ دے کر میں اچھائی پر قدرت طلب کرتا ہوں ، آپ غیب کو جاننے والے ہیں ۔
اے اللہ ! آپ علم رکھتے ہیں میں علم نہیں رکھتا ، یعنی یہ معاملہ میرے حق میں بہتر ہے یا نہیں،اس کا علم آپ کو ہے، مجھے نہیں  ، اور آپ قدرت رکھتے ہیں اور مجھ میں قوت نہیں ۔
یا اللہ ! اگر آپ کے علم میں ہے کہ یہ معاملہ (اس موقع پر اس معاملہ کا تصور دل میں لائیں جس کے لیے استخارہ کررہا ہے) میرے حق میں بہتر ہے، میرے دین کے لیے بھی بہتر ہے، میری معاش اور دنیا کے اعتبار سے بھی بہتر ہے اور انجام کار کے اعتبار سے بھی بہتر ہے اور میرے فوری نفع کے اعتبار سے اور دیرپا فائدے کے اعتبار سے بھی تو اس کو میرے لیے مقدر فرما دیجیے اور اس کو میرے لیے آسان فرما دیجیے اور اس میں میرے لیے برکت پیدا فرما دیجیے۔
اور اگر آپ کے علم میں یہ بات ہے کہ یہ معاملہ (اس موقع پر اس معاملہ کا تصور دل میں لائیں جس کے لیے استخارہ کررہا ہے) میرے حق میں برا ہے، میرے دین کے حق میں برا ہے یا میری دنیا اور معاش کے حق میں برا ہے یا میرے انجام کار کے اعتبار سے برا ہے، فوری نفع اور دیرپا نفع کے اعتبار سے بھی بہتر نہیں ہے تو اس کام کو مجھ سے پھیر دیجیے اور مجھے اس سے پھیر دیجیے اور میرے لیے خیر مقدر فرمادیجیے جہاں بھی ہو، یعنی اگر یہ معاملہ میرے لیے بہتر نہیں ہے تو اس کو چھوڑ دیجیے اور اس کے بدلے جو کام میرے لیے بہتر ہو اس کو مقدر فرمادیجیے، پھر مجھے اس پر راضی بھی کر دیجیے اور اس پر مطمئن بھی کردیجیے۔"
  
استخارہ کتنی بار کیا جائے؟
  
حضرت انس رضی اللہ عنہ ایک روایت میں فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ انس ! جب تم کسی کام کا ارادہ کرو تو اس کے بارے میں اللہ تعالی سے سات مرتبہ استخارہ کرو ، پھر اس کے بعد (اس کا نتیجہ) دیکھو، تمہارے دل میں جو کچھ ڈالا جائے ، یعنی استخارے کے نتیجے میں بارگاہ حق کی جانب سے جو چیز القاء کی جائے اسی کو اختیار کرو کہ تمہارے لیے وہی بہتر ہے ۔ 
(مظاہر حق)
  
بہتر یہ ہے کہ استخارہ تین سے سات دن تک پابندی کے ساتھ متواتر کیا جائے، اگر اس کے بعد بھی تذبذب اور شک باقی رہے تو استخارہ کاعمل مسلسل جاری رکھے ، جب تک کسی ایک طرف رجحان نہ ہوجائے کوئی عملی اقدام نہ کرے ، اس موقعہ پر  اتنی بات سمجھنی ضروری ہے کہ استخارہ کرنے کے لیے کوئی مدت متعین نہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جو ایک ماہ تک استخارہ کیا تھا تو ایک ماہ بعد آپ کو شرح صدر ہو گیا تھا اگر شرح صدر نہ ہوتا تو آپ آگے بھی استخارہ جاری رکھتے۔ 
(رحمة اللہ الواسعة)
  
استخارہ کا نتیجہ اور مقبول ہونے کی علامت، استخارہ سے کس طرح رہنمائی ملے گی؟
  
حکیم الامت حضرت تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ استخارہ کا صرف اتنا اثر ہوتا ہے کہ جس کام میں تردد اور شک ہو کہ یوں کرنا بہتر ہے یا یوں؟یا یہ کرنا بہتر ہے یا نہیں؟ تو استخارے کے مسنون عمل سے دو فائدے ہوتے ہیں: 
 دل کا کسی ایک بات پر مطمئن ہوجانا۔
 اور اس مصلحت کے اسباب میسر ہو جانا، تاہم اس میں خواب آنا ضروری نہیں۔ 
(اصلاح انقلاب امت)
  
بعض حضرات کا کہنا یہ ہے کہ استخارہ کرنے کے بعد خود انسان کے دل کا رجحان ایک طرف ہوجاتا ہے، بس جس طرف رجحان ہو جائے وہ کام کر لے، اور بکثرت ایسا رجحان ہو جاتا ہے، لیکن بالفرض اگر کسی ایک طرف رجحان نہ بھی ہو بلکہ دل  میں کشمکش موجود ہو تو بھی استخارہ کا مقصد حاصل ہوگیا۔ اس لیے کہ بندہ کے استخارہ کرنے کے بعد اللہ تعالی وہی کرتے ہیں جو اس کے حق میں بہتر ہوتا ہے، اس کے بعد حالات ایسے پیدا ہوجاتے ہیں پھر وہی ہوتا ہے جس میں بندے کے لیے خیر ہوتی ہے اور اس کو پہلے سے معلوم بھی نہیں ہوتا۔ بعض اوقات انسان ایک راستے کو بہت اچھا سمجھ رہا ہوتا ہے لیکن اچانک رکاوٹیں پیدا ہو جاتی ہیں اور اللہ تعالی اس کو اس بندے سے پھیر دیتے ہیں، لہذا اللہ تعالی استخارہ کے بعد اسباب ایسے پیدا فرما دیتے ہیں کہ پھر وہی ہوتا ہے جس میں بندے کے لیے خیر ہوتی ہے، اب خیر کس میں ہے؟ انسان کو پتہ نہیں ہوتا لیکن اللہ تعالی فیصلہ فرما دیتے ہیں۔
  
استخارہ کے باوجود اگرنقصان ہوگیا تو ۔۔!!!
  
"مکحول ازدی رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما کا یہ ارشاد سنا ،فرماتے ہیں کہ بعض اوقات انسان اللہ تعالی سے استخارہ کرتا ہے کہ جس کام میں میرے لیے خیر ہو وہ کام ہوجائے تو اللہ تعالی اس کے لیے وہ کام اختیار فرما دیتے ہیں جو اس کے حق میں بہتر ہوتا ہے، لیکن ظاہری اعتبار سے وہ کام اس بندہ کی سمجھ میں نہیں آتا تو بندہ اپنے پروردگار سے ناراض ہوتا ہے کہ میں نے اللہ تعالی سے تو یہ کہا تھا کہ میرے لیے اچھا کام تلاش کیجیے، لیکن جو کام ملا وہ تو مجھے اچھا نظر نہیں آرہا ہے، اس میں میرے لیے تکلیف اور پریشانی ہے، لیکن کچھ عرصے بعد جب انجام سامنے آتا ہے تب اس کو پتہ چلتا ہے کہ حقیقت میں اللہ تعالی نے میرے لیے جو فیصلہ کیا تھا وہی میرے حق میں بہتر تھا، اس وقت اس کو پتہ نہیں تھا اور یہ سمجھ رہا تھا کہ میرے ساتھ زیادتی اور ظلم ہوا ہے، اور اصل بات یہ ہے کہ اللہ تعالی کے فیصلے کا صحیح ہونا بعض اوقات دنیا میں ظاہر ہوجاتا ہے اور بعض اوقات آخرت میں ظاہر ہو گا۔
(کتاب الزہد)
  
-------- استخارہ کے بارے میں چند کوتاہیاں اورغلط فہمیاں --------
  
استخارہ کس قدر آسان کام ہے، مگر اس میں بھی شیطان نے کئی پیوند لگا دیے ہیں:
پہلا پیوند یہ کہ دو رکعت پڑھ کر کسی سے بات کیے بغیر سو جاؤ ، سونا ضروری ہے ورنہ استخارہ بے فائدہ رہے گا۔
 دوسرا پیوند یہ لگایا کہ لیٹو بھی دائیں کروٹ پر۔
تیسرا یہ کہ قبلہ رو لیٹو ۔
چوتھا پیوند یہ لگایا کہ لیٹنے کے بعد اب خواب کا انتظار کرو، استخارہ کے دوران خواب نظر آئے گا۔
 پانچواں پیوند یہ لگایا کہ اگر خواب میں فلاں رنگ نظر آئے تو وہ کام بہتر ہوتا ہے، فلاں نظر آئے تو وہ بہتر نہیں۔
چھٹا پیوند یہ لگایا کہ اس خواب میں کوئی بزرگ آئے گا ،بزرگ کا انتظار کیجیے کہ وہ خواب میں آکر سب کچھ بتادے گا، لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ وہ بزرگ کون ہو گا؟ اگر شیطان ہی بزرگ بن کر خواب میں آجائے تو اس کو کیسے پتہ چلے گا کہ یہ شیطان ہے یا کوئی بزرگ؟
  
یاد رکھیے کہ ان میں سے کوئی ایک چیز بھی حدیث سے ثابت نہیں۔ یہ باتیں لکھنے والوں نے کتابوں میں بغیر تحقیق کے لکھ دی ہیں۔ اللہ تعالی ان لکھنے والے مصنفین پر رحم فرمائیں۔
باوضو ،قبلہ رخ اور دائیں کروٹ پر سونا نیند کے آداب میں سے تو ضرور ہے، لیکن یہ ضروری نہیں کہ استخارہ رات کو سونے سے پہلے ان مذکورہ بالا شرائط کے ساتھ لازمی سمجھ کر کیا جائے۔
  
اکثر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ استخارہ صرف اسی کام میں ہے جو کام بہت اہم یا بڑا ہے اور جہاں انسان کے سامنے دو راستے ہیں یا جس کام میں انسان کو تردد یا شک ہے صرف ایسے ہی کاموں میں استخارہ کرنا چاہیے ، چنانچہ آج کل عوام الناس کو اپنی زندگی کے صرف چند مواقع پر ہی استخارہ کے مسنون عمل کی توفیق نصیب ہوتی ہے، مثلا نکاح کے لیے یا کاروبار کے لیے استخارہ کرلیا اور بس! گویا ہم ان چند گنے چنے مواقع پر تو اللہ سے خیر اور بھلائی کے طلب گار ہیں اور باقی تمام زندگی کے روز وشب میں ہم اللہ سے خیر مانگنے سے بے نیاز اور مستغنٰی ہیں۔

یہ بات اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ استخارہ صرف اہم اور بڑے کاموں ہی میں نہیں ہے، بلکہ اپنے ہر کام میں چاہے وہ چھوٹا ہو یا بڑا ، اللہ تعالی سے خیر اور بھلائی طلب کرنی چاہیے۔ اسی طرح استخارے میں یہ بھی ضروری نہیں کہ اس کام میں تردد اور تذبذب ہو تب ہی استخارہ کیا جائے ، بلکہ تردد نہ بھی ہو اور اس کام میں ایک ہی صورت اورایک ہی راستہ ہو تب بھی استخارہ کرنا چاہیے۔
  
بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ استخارہ ہمیشہ رات کو سوتے وقت ہی کرنا چاہیے یا عشاء کی نماز کے بعد ہی کرنا چاہیے. ایسا کوئی ضروری نہیں ، بلکہ جب بھی موقع ملے اس وقت استخارہ کرلے، نہ رات کی کوئی قید ہے اور نہ دن کی کوئی قید ہے، نہ سونے کی کوئی قید ہے اور نہ جاگنے کی کوئی قید ہے، بشرطیکہ وہ نفل کی ادائیگی کا مکروہ وقت نہ ہو۔ 
عام طور پر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ”استخارہ “ کرنے کا کوئی خاص طریقہ اور خاص عمل ہوتا ہے، اس کے بعد کوئی خواب نظر آتا ہے اور اس خواب کے اندر ہدایت دی جاتی ہے کہ فلاں کام کرو یا نہ کرو۔

خوب سمجھ لیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے استخارہ کا جو مسنون طریقہ ثابت ہے، اس میں اس قسم کی کوئی بات موجود نہیں۔ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ استخارہ کرنے کے بعد آسمان سے کوئی فرشتہ آئے گا یا کوئی کشف والہام ہوگا یا خواب آئے گا اور خواب کے ذریعے ہمیں بتایا جائے گا کہ یہ کام کرو یا نہ کرو۔ 
یاد رکھیے ! خواب آنا کوئی ضروری نہیں کہ خواب میں کوئی بات ضرور بتائی جائے یا خواب میں کوئی اشارہ ضرور دیا جائے۔ بعض مرتبہ خواب میں آ جاتا ہے اور بعض مرتبہ نہیں آتا۔
  
استخارہ کے باب میں لوگ ایک غلطی کرتے ہیں، اس کی اصلاح بھی ضروری ہے. وہ یہ کہ بہت سے لوگ خود استخارہ کرنے کی بجائے دوسروں سے کرواتے ہیں ،اور کہتے ہیں کہ آپ ہمارے لیے ”استخارہ نکال دیجیے“ گویا جیسے فال نکالی جاتی ہے ویسے ہی استخارہ بھی نکال دیجیے. دوسروں سے استخارے کروانے کا مطلب تو وہی عمل ہوا جو جاہلیت میں مشرکین کیا کرتے تھے اور جس کے انسداد اور خاتمے کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو استخارے کی نماز اور دعا سکھائی، اور یہ اسی وجہ سے ہوا کہ لوگوں نے استخارے کو یہ سمجھ لیا ہے کہ اس سے گویا کوئی خبر مل جاتی ہے یا الہام ہو جاتا ہے کہ کیا کرنا چاہیے. جس طرح جاہلیت میں تیروں پر لکھ کر یہ معلوم کیا جاتا تھا، اسی طرح آج کل تسبیح کے دانوں پر اس قسم کے استخارے کیے جارہے ہیں، یہ طریقہ بالکل غلط ہے اور انتہا تو یہ ہوگئی کہ اب عوام میں یہ رواج چل پڑا ہے کہ ٹی وی اور ریڈیو پر استخارے نکلوائے جارہے ہیں،حالانکہ استخارہ اللہ تعالی سے اپنے معاملے میں خیر اور بھلائی کا طلب کرنا ہے، نہ کہ خبر کا معلوم کرنا۔
  
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ہدایت یہ ہے کہ جس کا کام ہو وہ خود استخارہ کرے، دوسروں سے کروانے کا کوئی ثبوت نہیں۔ جب حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں موجود تھے اس وقت صحابہ سے زیادہ دین پر عمل کرنے والا کوئی نہیں تھا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بہتر استخارہ کرنے والا بھی کوئی نہ تھا، لیکن کہیں یہ نہیں لکھا کہ کسی صحابی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے جا کر یہ کہا ہو کہ آپ میرے لیے استخارہ کردیجیے. سنت طریقہ یہی ہے کہ صاحبِ معاملہ خود کرے، اسی میں برکت ہے ۔ لوگ یہ سوچ کر کہ ہم تو گناہ گار ہیں، ہمارے استخارے کا کیا اعتبار؟ اس لیے خود استخارہ کرنے کی بجائے فلاں بزرگ اور عالم سے یا کسی نیک آدمی سے کرواتے ہیں کہ اس میں برکت ہو گی۔ لوگوں کا یہ زعم اور یہ عقیدہ غلط ہے۔ جس کا کام ہو وہ خود استخارہ کرے،خواہ وہ نیک ہو یا گناہ گار۔ دوسرے سے استخارہ کرانا اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے، خود د عا کے الفاظ سے بھی یہی مترشح ہورہا ہے ،دعا کے الفاظ میں متکلم کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے، اس لیے صاحب معاملہ کو خود کرنا چاہیے ، استخارہ دوسرے سے کروانا، ناجائز تونہیں لیکن بہتر اور مسنون بھی نہیں ہے۔ سلامتی کا طریقہ وہی ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے۔
  
انسان کتنا ہی گناہ گار کیوں نہ ہو، بندہ تواللہ ہی کا ہے اور جب بندہ اللہ سے مانگے گا تو جواب ضرور آئے گا، جس ذات کا یہ فرمان ہو کہ” ادعونی استجب لکم“ مجھ سے مانگو میں دعا قبول کروں گا ۔ تو یہ اس عظیم و کبیر ذات کے ساتھ بد گمانی ہے، وہ ذات تو ایسی ہے کہ شیطان جب جنت سے نکالا جا رہا ہے، راندہ درگاہ کیا جارہا ہے تواس وقت شیطان نے دعا کی، اللہ نے اس کی دعا کو قبول فرمایا۔ جو شیطان کی دعا قبول کررہا ہے ،کیا وہ ہم گناہ گاروں کی دعا قبول نہ کرے گا؟ اور جب کوئی استخارہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع سنت کے طور پر کرے گا تو یہ ممکن نہیں کہ اللہ دعا نہ سنے، بلکہ ضرور سنے گا اور خیر کو مقدر فرمائے گا،اللہ کی بارگاہ میں سب کی دعائیں سنی جاتی ہیں، ہاں یہ ضرور ہے کہ گناہوں سے بچنا چاہیے تاکہ دعا جلد قبول ہو ۔
  
لوگوں میں بکثرت یہ خیال بھی پایا جاتا ہے کہ گناہ گار استخارہ نہیں کرسکتے، یہ دو وجہ سے باطل اور غلط ہے: 
  
 پہلی وجہ یہ کہ گناہوں سے بچنا آپ کے اختیار میں ہے، مسلمان ہو کر کیوں گناہ گار ہیں؟ گناہ صادر ہوگیا تو صدق دل سے توبہ کرلیجیے، بس گناہوں سے پاک ہوگئے، نیک لوگوں کے زمرے میں شامل ہوگئے۔ توبہ کی برکت سے اللہ تعالی نے پاک کردیا۔ اب اللہ کی اس رحمت کی قدر کریں اور آئندہ جان بوجھ کر گناہ نہ کریں۔
 دوسری وجہ یہ کہ استخارہ کے لیے شریعت نے تو کوئی ایسی شرط نہیں لگائی کہ استخارہ گناہ گار انسان نہ کرے، کوئی ولی اللہ کرے۔ جو شرط شریعت نے نہیں لگائی ،آپ اپنی طرف سے اس شرط کو کیوں بڑھاتے ہیں؟ شریعت کی طرف سے تو صرف یہ حکم ہے کہ جس کی حاجت ہو وہ استخارہ کرے، خواہ وہ گناہ گار ہو یا نیک ، جیسا بھی ہو ،خود کرے۔ عوام یہ کہتے ہیں کہ استخارہ کرنا بزرگوں کا کام ہے، تو بزرگ حضرات بھی سمجھنے لگے کہ ہاں! یہ صحیح کہہ رہے ہیں، استخارہ کرنا ہمارا ہی کام ہے عوام کا کام نہیں۔ عوام کو غلطی پر تنبیہ کرنے کی بجائے خود غلطی میں شریک ہو گئے۔ ان کے پاس جو بھی چلا جائے، یہ پہلے سے تیار بیٹھے ہیں کہ ہاں لائیں ! آپ کا استخارہ ہم ”نکال دیں گے“ اور استخارہ کرنے کو ”استخارہ نکالنا“ کہتے ہیں۔ یاد رکھیں !یہ ایک غلط روش ہے اوراس غلط روش کی اصلاح ضروری ہے۔

No comments:

Post a Comment